کتاب: سوئے منزل - صفحہ 274
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ بقیع کے لیے ہا تھ اٹھا کر دعا کی تھی۔[1] اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ حضرت عبداللہ ذوالنجادین کے دفن سے فارغ ہوئے تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے دعا فرمائی۔ [2] سوال: میت کو دفن کے لیے جائے وفات سے دوسرے ملک یا شہر میں منتقل کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب: اصل تو یہ ہے کہ میت جہاں فوت ہو اس کو وہیں پہ دفن کیا جائے، جیسا کہ شہدائے اُحد کو مدینہ طیبہ کے قبرستان کے قریب ہونے کے باوجود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں میدانِ اُحد ہی میں دفن کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن اگر ضرورت یا حالات اس امر کے متقاضی ہوں کہ میت کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہی مناسب ہو تو جمہور فقہا نے چند شروط کے پیشِ نظر اسے جائز قرار دیا ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن قدامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’فَلاَ یُنْقَلُ الْمَیِّتُ مِنْ بَلَدِہِ إِلَی بَلَدٍ آخَرَ إِلاَّ لِغَرْضٍ صَحِیْحٍ‘‘[3] اور سعودیہ کی مستقل فتوی کمیٹی ’’اللجنۃ الدائمۃ‘‘ کا فتویٰ ہے: ’’۔۔۔۔ قال جمہور الفقہاء: لا یجوز أن ینقل المیت قبل دفنہ إلی غیر البلد الذي مات فیہ إلا لغرض صحیح، مثال أن یخشی من حیث مات من الاعتداء علی قبرہ، أو انتہاک حرمتہ لخصومۃ أو استہتار و عدم مبالاۃ فیجب نقلہ إلی حیث یؤمن علیہ۔ و مثل أن ینقل إلی بلدہ تطییبا
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۳۰۱). [2] صحیح أبي عوانۃ، رقم الحدیث (۱۱/ ۱۴۴). [3] المغني (۲؍ ۱۹۳۔ ۱۹۳).