کتاب: سوئے منزل - صفحہ 273
سوال: جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہی فوت ہو جائے، اس کی نمازِ جنازہ کا کیا حکم ہے؟ جواب: جو بچہ ما ں کے پیٹ میں چارماہ کی عمر کو پہنچ جاتا ہے، اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔[1] اگر ایسا بچہ پیدایش سے قبل ما ں کے پیٹ میں ہی فوت ہو جائے، اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جا سکتی ہے، لیکن فرض نہیں اور اسے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے گا۔ جیساکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((-۔۔ اَلسِّقْطُ یُصَلَّی عَلَیْہِ وَیُدْعٰی لِوَالِدَیْہِ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ )) [2] ’’اور ناتمام بچے کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے، اور اس کے والدین کے لیے بخشش اور رحمت کی دعا کی جائے۔‘‘ اور ’’المغني لابن قدامۃ‘‘ میں ہے کہ ا مام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’إِذَا أَتَی عَلَیْہِ أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٌ غُسِّلَ وَصُلِّيَ عَلَیْہِ‘‘ ’’اگر بچہ حمل کے چار ماہ بعد پیدا ہو تو اسے غسل بھی دیا جائے اور اس کی نمازِ جنازہ بھی ادا کی جائے۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک نواسہ فوت شدہ پیدا ہوا تھا تو انھوں نے اس کی نمازِ جنازہ ادا کی تھی۔[3] سوال: قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب: قبرستان میں اہلِ قبور کی بخشش و مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۳۳۲). [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۱۸۰) مسند أحمد (۵؍ ۳۰۲). [3] المغني (۳؍ ۴۵۸).