کتاب: سوئے منزل - صفحہ 272
کی میت کو کندھا دے سکتا اور اس کی چارپائی کو ہا تھ لگا سکتا ہے، کیوں کہ جنازے کو کندھا دینے یا میت (عورت) کو قبر میں اتارنے کے لیے محرم ہونا شرط نہیں ہے، لیکن اس کا وہ رفیقِ حیات جس نے زندگی اس کے سا تھ گزاری ہے، کیا وہ چارپائی کو ہا تھ بھی نہیں لگا سکتا؟ اس منطق کے مطابق تو میاں بیوی کو ایک دوسرے کا وارث بھی نہیں ہونا چاہیے، لیکن خود ساختہ ضابطے کی اس شق کو ماننے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا، جب کہ اس کے برعکس شریعتِ اسلامی کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی میت کو غسل بھی دے سکتے ہیں-
المغنی لابن قدامہ میں ہے:
’’علامہ ابن منذر نے اس مسئلے میں اہلِ علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ اور یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ انھیں ان کی رفیقۂ حیات اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا غسل دیں ، چنانچہ انھوں نے ہی ان کو غسل دیا تھا، اسی طرح حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ ام عبداللہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا اور حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہ نے بھی وصیت کی تھی کہ ان کی میت کو ان کی بیوی غسل دے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لیس فیہ اختلاف بین الناس‘‘ اس مسئلے میں لو گوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘[1]
لہٰذا بے رحم معاشرے سے اپیل ہے کہ جب تک فریقین (خاوند اور بیوی) میں سے کسی ایک کی میت قبر میں منتقل ہونے سے قبل زمین پر موجود ہے، اس وقت تک زندہ فریق کو اس سے دور بھگا کر صدمے سے نڈھال شوہر یا بیوی کے رنج و غم میں اضافہ نہ کریں ، بلکہ ان کے سا تھ ہمدردانہ رویہ اختیار کریں اور انھیں تجہیز و تکفین میں اولویت کا حق دیں-
[1] المغني (۳؍ ۳۶۰۔ ۳۶۱).