کتاب: سوئے منزل - صفحہ 270
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے پیغام بھجوایا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لایا جائے، تاکہ وہ بھی ان کی نمازِ جنازہ میں شریک ہو سکیں ، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے ان کی نمازِ جنازہ ادا کی توبعض لو گوں نے جنازہ مسجد میں لانے پر اعتراض کیا کہ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا، جب اس کی اطلاع ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا: لوگوں کی لا علمی کی بنا پر مسجد میں جنازہ لانے پر اعتراض کرنے میں کس قدر عجلت سے کام لیا ہے، حالاں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ صحنِ مسجد ہی میں پڑھائی تھی۔‘‘[1]
اور حضرت عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب عمیر بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ (بچپن میں ) فوت ہوئے تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے گھر میں اس بچے کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ابو طلحہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ان کے پیچھے ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نمازِ جنازہ ادا کی۔ [2]
مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے چند امور کی وضاحت ہوتی ہے:
1 مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کرنا۔
2 خواتین کا نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا۔
3 خواتین کی صفیں عام نمازوں کی طرح مردوں کے پیچھے ہوں گی۔
4 نابالغ بچے کی نمازِ جنازہ ادا کرنا۔
لہٰذا جب ایسی صورت حال ہو کہ جہاں نمازِ جنازہ ادا کی جا رہی ہو، وہاں عورتیں بھی موجود ہوں تو وہ نمازِ جنازہ میں شرکت کر سکتی ہیں ، مثلاً: نماز ادا کرنے کے
[1] صحیح مسلم، باب الصلاۃ علی الجنازۃ في المسجد، رقم الحدیث (۱۶۱۵).
[2] المستدرک للحاکم، کتاب الجنائز (۱۳۵۰).