کتاب: سوئے منزل - صفحہ 27
واضح ہوتا ہے کہ سچے اور حقیقی مسلمان قیامت اور آخرت کو صرف مانتے ہی نہیں ، بلکہ اس پر کا مل یقین بھی رکھتے ہیں- امیر المومنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی انگشتری پر یہ نقش تھا: ’’کَفَیٰ بِالْمَوْتِ وَاعِظاً‘‘[1] ’’نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے۔‘‘ تین خصلتیں ، تین نتائج: حضرت الدقاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مَنْ أَکْثَرَ ذِکْرَ الْمَوْتِ اُکْرِمَ بِثَلاثَۃِ أَشْیَائٍ: تَعْجِیْلِ الْتَوْبَۃِ، وَقَنَاعَۃِ الْقَلْبِ، وَ نَشَاطِ الْعِبَادَۃِ۔ وَمَنْ نَسِيَ الْمَوْتَ عُوْقِبَ بِثَلاثَۃِ أَشْیَائٍ: تَسْوِیْفِ التَّوْبَۃِ، وَ تَرْکِ الرِّضَیٰ بِالْکَفَافِ، وَ التَّکَاسُلِ فِيْ الْعِبَادَۃِ‘‘[2] ’’جوشخص موت کو بہ کثرت یاد کرتا ہے، اسے تین چیزوں سے نوازا جاتا ہے: 1. توبہ کرنے میں جلدی کرنا۔ 2.قناعت۔ 3. اور عبادت میں نشاط اور دلچسپی، اور جو شخص موت کو فراموش کر دیتا ہے، اسے تین طرح سے اس کی سزا ملتی ہے: 1.توبہ کرنے میں ٹال مٹول سے کام لینا۔ 2. اللہ تعالیٰ کی طرف سے بقدر کفایت رزق پر خوش نہ ہونا۔ 3.عبادت میں سستی اور کوتاہی کرنا۔‘‘ عزیزانِ گرامی! ہم ہر روز اٹھتے ہوئے جنازے دیکھنے کے باوجود یہ خیال کرتے ہیں کہ موت صرف دوسروں کے لیے ہی ہے، ہم نے کونسا مرنا ہے، جیسا کہ ہم آبِ حیات پی کر آئے ہیں-
[1] تاریخ الخلفاء (ص: ۱۳۶). [2] التذکرۃ للقرطبي (۱/ ۲۷).