کتاب: سوئے منزل - صفحہ 269
سے یہی موقف زیادہ قوی ہے۔ (اس مسئلے کے دلائل کی تفصیل خوفِ طوالت سے اس مختصر رسالے میں بیان کرنے سے معذور ہیں-إن شاء اللہ۔ کسی دوسرے مقام پر اس کی وضاحت کی جائے گی)۔ اور جہاں تک کسی ضرورت مند مریض کو اپنا خون بطور عطیہ دینے کا تعلق ہے تو یہ صحت مند اور قوتِ برداشت رکھنے والوں کے لیے جائز ہے کیوں کہ اس کی ( Replacment ) ہو جاتی ہے، یعنی اس کی جگہ پر نیا خون پیدا ہو جاتا ہے اور پھر خون دینے سے جسم کا کوئی عضو بھی تلف نہیں ہوتا۔ سوال: نمازِ جنازہ میں بعد میں آکر شامل ہونے والے کے لیے فوت شدہ تکبیرات کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر کسی کی تکبیرات رہ جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ فوت شدہ تکبیرات کو پورا کر کے پھر سلام پھیرے، جیسا کہ باقی نمازوں میں کوئی رکعت رہ جانے کی صورت میں مسبوق امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرتا، بلکہ فوت شدہ رکعات کو مکمل کرکے سلام پھیرتا ہے۔ کیوں کہ نمازِ جنازہ کی تکبیرات نماز کا حصہ ہیں ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( مَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوا )) [1] ’’تمھیں جس قدر نماز (امام کے ساتھ) مل جائے ادا کر لو اور جس قدر فوت ہو چکی ہو، اسے بعد میں مکمل کرلو۔‘‘ سوال: عورتیں بھی نمازِ جنازہ میں شرکت کرسکتی ہیں ؟ جواب: عورتیں بھی مردوں کے ساتھ نمازِ جنازہ میں شریک ہوسکتی ہیں ، بشرطیکہ عورتوں کی صفیں مردوں کی صفوں کے پیچھے ہوں ، لیکن وہ جنازے کے پیچھے تدفین کے لیے نہیں جا سکتیں ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۳۲).