کتاب: سوئے منزل - صفحہ 268
عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر یہ دریافت کیا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور انھوں نے حج نہیں کیا تھا، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! آپ ان کی طرف سے حج کر سکتی ہیں-‘‘
میت کی طرف سے قربانی:
میت مکلف نہیں ہے، اس لیے اس پر قربانی واجب نہیں اور نہ ہی اس بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود ہے۔ ہاں اگر کوئی صدقے کی نیت سے قربانی کرنا چاہتا ہو تو حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے قول کے مطابق اسے سارا گوشت فقرا میں تقسیم کرنا ہو گا، کیوں کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔[1]
چند سوالات اور ان کے جوابات:
سوال: کیا کوئی شخص زندگی میں اپنے اعضائے جسم کسی کو ہبہ یا فروخت کر سکتا ہے یا مرتے وقت ان کا عطیہ دینے کی وصیت کر سکتا ہے؟
عزیزانِ گرامی! اس کا جواب معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے: ’’کیا ہمارا جسم ہماری ذاتی ملکیت ہے یا کہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور ہمیں اس سے استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے؟‘‘
اس کا جواب یقینا یہی ہے: ’’ہمار اجسم ہماری ذاتی ملکیت نہیں ، بلکہ یہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، جس کی حفاظت ہمارے ذمے ہے اور اس سے ایک مدت تک استفادہ کرنے کی ہمیں اجازت ہے۔‘‘لہٰذا جو چیز ہماری ملکیت نہیں ہم اسے نہ تو فروخت سکتے ہیں اور نہ کسی کوہبہ کر سکتے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دے سکتے ہیں اور نہ ہی مرنے کے بعد کسی کے لیے اس کی وصیت کرسکتے ہیں- دلائل کے اعتبار
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۴۹۵).