کتاب: سوئے منزل - صفحہ 267
(( وَعَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! إِنَّ أُمِّيْ مَاتَتْ، فَأیُّ الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: اَلْمَائُ فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ: ہٰذِہ لِأُمِّ سَعْدٍ )) [1] ’’حضرت سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ فوت ہو چکی ہیں- (ان کی طرف سے) کونسا صدقہ افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی (پلانا) تو انھوں نے کنواں کھدوایا اور کہا: یہ اُم سعد کی طرف سے ہے۔‘‘ مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ فوت شدگان کی طرف سے صدقہ کرنے کا فائدہ انھیں پہنچتا ہے۔ اور اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نیک اور فرماں بردار اولاد کس طرح والدین کی بخشش و مغفرت اور ان کی حسنات میں اضافے کے متمنی ہوتے ہیں اور ان کے ایصالِ ثواب کے لیے اپنا قیمتی مال بھی اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ اس بے فیض اولاد کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو والدین کی جائیداد پر قابض ہو کر اپنی چودھراہٹ تو چمکاتے ہیں ، لیکن اپنے ان محسنین ہی کے مال سے صدقہ کرنا تو درکنار، ان کے ذمے قرض بھی ادا نہیں کرتے۔ میت کی طرف سے حج کرنا: (( عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: جَائَ تْ امْرَأَۃٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّيْ مَا تَتْ وَلَمْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْہَا قَالَ: نَعَمْ! حُجِّيْ عَنْہَا )) [2] ’’حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : ایک
[1] صحیح أبو داود، رقم الحدیث (۱۶۸۱). [2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۹۲۹) وقال الألباني: صحیح.