کتاب: سوئے منزل - صفحہ 266
’’ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریا فت کیا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہیں ، میرا خیال ہے، اگر وہ وفات کے وقت کلام کر سکتیں تو صدقہ کرتیں ، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! تم ان کی طرف سے صدقہ کرو۔‘‘ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: (( إِنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إِنَّ أُمَّہٗ تُوُفِّیَتْ أَ یَنْفَعُہَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْہَا؟قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ لِيْ مِخْرَافًا‘ فَأَنَا أُشْہِدُکَ أَنِّيْ قَدْ تَصَدَّقْتُ بِہِ عَنْہَا )) [1] ’’ایک آدمی (حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس کی امی جان فوت ہو گئی ہیں ، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا وہ ان کے لیے نفع مند ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں ! تو اس آدمی نے کہا: میرا ایک پھل دار باغ ہے، میں آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں : میں نے وہ باغ ان (اپنی امی جان) کی طرف سے صدقہ کر دیا۔‘‘ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: (( أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلْنَبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إِنَّ أَبِيْ مَاتَ وَتَرَکَ مَالاً وَلَمْ یُوْصِ، وَہَلْ یُکَفَّرُ عَنْہٗ أَنْ أَتَصَدَّقَّ عَنْہٗ؟ قَالَ: نَعَمْ! )) [2] ’’ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میرے والد وفات پا گئے ہیں اور انھوں نے ترکے میں مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لیے کفارۂ گناہ بنے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں ! (بنے گا)۔‘‘
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۷۷۰). [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۳۰۶).