کتاب: سوئے منزل - صفحہ 264
مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے بہ خوبی واضح ہے کہ قرض کا معاملہ کس قدر سنگین اور حساس ہے، کیوں کہ اس کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے اور اپنا حق صرف صاحبِ حق ہی معاف کر سکتا ہے، لہٰذا میت کے لواحقین کو اس معاملے میں کوتاہی کرنا شرعاً اور اخلاقاً دونوں طرح ہی مناسب نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی اکرم سے روایت کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ کَانَتْ عِنْدَہٗ مَظْلَمَۃٌ لِأَخِیْہِ، مِنْ عِرْضِہِ أَوْ مِنْ شَیْیٍٔ، فَلْیَتَحَلَّلْہُ مِنْہُ الْیَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَّا یَکُوْنَ دِیْنَارٌ وَلاَ دِرْہَمٌ، إِنْ کَانَ لَہٗ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْہُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِہِ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَیِّئَاتِ صَاحِبِہِ فَحُمِلَ عَلَیْہِ )) [1]
’’جس شخص کے ذمے اس کے کسی بھائی کا اس کی عزت و آبرو یا کسی بھی دیگر معاملے سے متعلقہ کوئی حق ہو تو اسے آج (اسی دنیا میں ) ہی اس سے سبکدوش ہو جانا چاہیے، اس سے قبل کہ وہ دن آجائے (قیامت) جب کہ (انسان کے پاس) درہم و دینار نہیں ہوں گے، (یعنی معاملہ نیکی و بدی سے طے ہوگا) اگر اس (زیادتی کرنے والے) کے پاس نیکیاں ہوئیں تو اس کے ظلم و زیادتی کے بقدر اس سے لے کر (صاحبِ حق لوگوں کو دی جائیں گی) اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تواس کی زیادتی کے حساب سے صاحبِ حق کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے۔‘‘
بیوی کا غیر ادا شدہ حق مہر:
اسی طرح بیوی کا حق مہر اگر ادا نہ کیا ہو تو وہ شوہر کے ذمے قرض ہوتا ہے، الا یہ کہ بیوی اپنا حق معاف کر دے، یہ تمام قسم کے قرض ترکے سے ادا کیے جائیں گے۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۰۵۳).