کتاب: سوئے منزل - صفحہ 263
میں لے کر حاضر ہوئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے ایک ہی قدم آگے بڑھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا: ’’کیا اس کے ذمے کوئی قرض ہے؟‘‘ ہم نے عرض کی: اس پر دو دینار قرض ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹ گئے۔ پھرحضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ نے یہ قرض اپنے ذمے لے لیا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ نے اقرار کیا کہ وہ دو دینار میر ے ذمے ہیں تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( قَدْ اُوْفِيَ حَقُّ الْغَرِیْمِ، وَبَرِئَ مِنْھُمَا الْمَیِّتُ؟ قَالَ: نَعَمْ! فَصَلَّی عَلَیْہَ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِکَ بِیَوْمٍ: ’’مَا فَعَلَ الدِّیْنَارَانِ؟‘‘ قُلْتُ: إِنَّمَا مَاتَ أَمْسِ! قَالَ فَعَادَ إِلَیْہِ مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: قَدْ قَضَیْتُھُمَا فَقَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم : ’’اَلْآنَ قَدْ بَرَدَتْ جِلْدَتُہٗ))[1]
’’قرض خواہ کا حق اسے مل گیا اور میت اس سے برئ ہے؟‘‘ تو انھوں (ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ ) نے کہا: جی ہا ں ! تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (صحابی رضی اللہ عنہ ) کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ پھر ایک دن گزر جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ’’ان دو دیناروں کاکیا ہوا؟ میں نے عرض کی کہ ابھی وہ کل ہی تو فوت ہوا ہے۔ راویِ حدیث (جابر رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ اگلے روز پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (ابو قتادہ) سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا: ’’میں نے وہ دو دینار ادا کر دیے ہیں ‘‘ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب اس کی جان کو سکون ملا ہے۔‘‘
[1] صحیح الترغیب و الترہیب، رقم الحدیث (۱۸۱۲).