کتاب: سوئے منزل - صفحہ 260
کیا آپ اسے ادا کرتیں ؟ تو اس نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اپنی ماں کی جانب سے روزے بھی رکھو۔‘‘ سبحان اللہ! معلم انسانیت، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوبِ تفہیم کس قدر شفقت بھرا اور سہل و دل نشین ہیـ فَیَا رَبِّ! صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا أَبَداً عَلَی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّہِمِ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے: (( أَنَّ امْرَأَۃً رَکِبَتِ الْبَحْرَ فَنَذَرَتْ إِنْ نَجَّاہَا اللّٰہُ أَنْ تَصُوْمَ شَہْرًا فَنَجَّاہَا اللّٰہُ فَلَمْ تَصُمْ حَتّٰی مَاتَتْ، فَجَآئَ تِ ابْنَتُہَا أَوْ أُخْتُہَا إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ فَأَمَرَہَا أَنْ تَصُوْمَ عَنْہَا )) [1] ’’ایک خاتون سمندر (کشتی یا بحری جہاز) میں سوار ہوئی تو اس نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اسے سلامتی کے سا تھ پہنچا دیا تو وہ ایک ماہ کے روزے رکھے گی، اللہ تعالیٰ نے اسے نجات دی (یعنی طوفانوں سے بچا کر سلامتی کے سا تھ کنارے لگا دیا) لیکن وہ روزے نہ رکھ سکی، حتی کہ فوت ہو گئی۔ اس کی بیٹی یا بہن رسول اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔(اور مسئلہ پوچھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اس (متوفیہ) کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘ اور انہی (ابن عباس رضی اللہ عنہما ) سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری والدہ وفات پا چکی ہیں اور ان کے ذمے ایک نذر ہے۔ فقال: (( أَقْضِہِ عَنْہَا )) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اس کی طرف سے اس نذر کو پورا کرو۔‘‘
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۳۱۰).