کتاب: سوئے منزل - صفحہ 26
(مشکلات کو) آسان بنا دیتی ہے اور جو خوش حالی میں اسے یاد کرتا ہے تو وہ اسے دنیا بے زار بنا دیتی ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا کہ اتنے میں ایک انصاری صحابی آئے اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کرنے کے بعد پوچھا: ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ِ! أَيُّ الْمُؤْمِنِیْنَ أَفْضَلُ؟‘‘ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مومنوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَحْسَنُہُمْ أَخْلاَقًا )) ’’ان میں سے جس کے اخلاق سب سے عمدہ ہوں-‘‘ پھر انھوں نے دریافت کیا: مسلمانوں میں سب سے زیادہ عقل مند کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَکْثَرُہُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْرًا، وَأَحْسَنُہُمْ لِمَا بَعْدَہُ اسْتِعْدَادًا، أُولٰئِکَ الْأکْیَاسُ )) [1]۔
’’جو اُن میں سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا اور موت کے بعد پیش آمدہ احوال کے لیے سب سے اچھی تیاری کرنے والاہے۔ درحقیقت یہی لوگ دانا و عقل مند ہیں-‘‘
اے اہلِ نظر، ذوق نظر خوب ہے، لیکن
جو شئے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
اور سورۃ البقرہ کے آغاز میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات و خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ﴾ [البقرۃ: ۴] ’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں-‘‘
باقی اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے ﴿ يُوقِنُونَ ﴾ کے الفاظ ذکر کیے، لیکن آخرت پر ایمان کے لیے ﴿ يُوقِنُونَ ﴾ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسلوبِ قرآنی سے
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۲۵۹) صحیح الترغیب والترہیب، رقم (۱۳۸۴).