کتاب: سوئے منزل - صفحہ 259
(( مَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ صِیَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہُ )) [1]
’’جوشخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روز ے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘
حدیث پاک سے ظاہر ہے کہ میت کا ولی اس کی طرف سے (چھوٹے ہوئے) فرض روزے رکھ سکتا ہے۔
1. نذر کے روزے:
اگر میت نے کوئی نذر مانی، مثلاً: اگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے مریض کو شفاعطا کی تو میں اتنے روزے رکھوں گا / گی یا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے کوئی ترقی عطا کی تو میں اتنے روزے یاعمرہ یا کوئی اور نیکی کا کوئی اور کام سرانجام دوں گا / گی۔ لیکن وہ اپنی نذر پوری نہ کر سکا / سکی اور موت آگئی تو یہ نذر بھی ان کے ذمہ قرض ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
’’جَآئَ تِ امْرَأَۃٌ إِلَی رَسُوْ لِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ اُمِّيْ مَاتَتْ وَعَلَیْہَا صَوْمُ نَذْرٍ أَفَأَصُوْمُ عَنْھَا؟ قَالَ: أَرَأَیْتِ لَوْ کَانَ عَلَی أُمِّکِ دَیْنٌ فَقَضَیْتِہِ أَکَانَ یُؤَدَّیٰ ذَلِکَ عَنْہَا؟ قَالَتْ: نَعَمْ: قَالَ: فَصُوْمِيْ عَنْ أُمِّکِ‘‘[2]
’’ایک عورت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری امی جان وفات پاچکی ہیں اور ان کے ذمے نذر کے روزے ہیں- کیا میں ان کی طرف سے وہ روزے رکھوں ؟ تو آپ نے فرمایا: مجھے بتاؤ: اگر آپ کی امی جان کے ذمے قرض ہوتا تو
[1] صحیح البخاري، کتاب الصوم، رقم الحدیث (۱۸۱۶).
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۷۵۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۵۲).