کتاب: سوئے منزل - صفحہ 258
6.میت کی طرف سے قرض ادا کرنا: میت کے ذمے قرض دوقسم کا ہو سکتا ہے: حقوق اللہ سے متعلق قرض، مثلاً: میت کے زکات فرض تھی یا حج فرض ہو چکا تھا اور ادا کرنے میں کوتاہی کی یافرض روزے اس کے ذمے باقی تھے یاکوئی نذر مانی ہو اور پور ی نہ کی جا سکی ہو وغیرہ۔ جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اور عرض کی: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئیں- کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( نَعَمْ حُجِّيْ عَنْہَا، أَرَأَیْتِ لَوْ کَانَ عَلیٰ أُمِّکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ قَاضِیَۃً؟ إِقْضُوْا اللّٰہَ، فَاللّٰہُ أَحَقُّ بِالْوَفَائِ )) [1] ’’ہاں ! اس کی (اپنی والدہ) طرف سے حج اداکرو۔ یہ بتاؤ کہ اگر تمھاری ماں کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا آپ اسے ادا کرتیں ؟ اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرو، کیوں کہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘ اسی طرح اگر کسی عذر کی بنا پر میت کے فرض روزے چھوٹ گئے ہوں اور بعد میں اسے قضا دینے کا موقعہ بھی میسر آیا ہے، لیکن اس نے روزوں کی قضا میں کوتاہی کی حتی کہ اسے موت آگئی، مثلاً: بیماری یا سفر یا حیض و نفاس وغیرہ کی مجبوری کی بنا پر فرض روزے چھوٹ گئے ہوں اور بعد صحت یاب ہونے یا عذر زائل ہونے کے بعد اتنا وقت میسر آیا ہو کہ ان روزوں کی قضا دی جا سکے، لیکن قضا نہ دی ہو تو یہ روزے میت کے ذمے قرض ہیں- اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۸۵۲).