کتاب: سوئے منزل - صفحہ 255
قَالَ الْقَلْبُ حِیْنَ رَفَعْتُ کَفِّيْ تَہُمُّ بِدَعْوَۃٍ فَالْصَحْبُ أَھْلٌ
فَقُلْتُ: أَمَا تَرَيَ دَوْمًا بِأَنِّي دُعَائً لِلْأَحِبَّۃِ لاَ أَمَلُّ
’’جب میں دست بدعا ہوا تو دل سے یہ ندا آئی، دعا ما نگنا چاہتے ہو تو اپنے احباب کو شاملِ دعا رکھنا۔ میں نے (دل کو) جواب دیا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میں کبھی بھی اپنے احباب کے لیے دعا کرنے میں ملال یا اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔‘‘
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’أجمع العلماء علی أن الدعاء للأموات ینفعہم و یصل ثوابہ إلیہم‘‘
’’اس مسئلے پر علمائے امت کا اجماع ہے کہ فوت شدگان کے حق میں دعا ان کے لیے نفع مند ہے اور انھیں اس کا فائدہ حاصل ہو تا ہے۔‘‘
4. میت کے لیے دعا کی چند صورتیں ہیں :
1 نمازِ جنازہ میں دعائیں کرنا۔
2 میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعدقبر کے پا س کھڑے ہو کر دعا کرنا۔
3 قبرستان کی زیارت کے وقت مسنون دعا پڑھنا۔
4 اولاد کا والدین کے حق میں دعا کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کے حق میں ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا ہے:
﴿ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴾
’’اے میرے رب! ان دونوں (میرے والدین) پر اسی طرح رحم فرما جس طرح بہ کمال شفقت انھوں نے بچپن میں میر ی پرورش کی تھی۔‘‘
ہر مسلمان کو والدین کے حق میں یہ دعا ہمیشہ کرنی چاہیے۔