کتاب: سوئے منزل - صفحہ 254
وَبَیْتٌ لِلْغَریْبِ بَنَاہُ یَأوِيْ إِلَیْہِ أَوْ بَنَاہُ مَحَلُّ ذِکْرٍ ’’ اور بے گھر افراد کی سکونت کے لیے گھر تعمیر کرنا یا مسجد بنوانا۔‘‘ وَتَعْلِیْمٌ لِقُرْآنٍ کَرِیْمٍ فَخُذْہَا مِنْ أَحَادِیْثَ بِحَصْرٍ ’’اور قرآن کریم کی تعلیم دینا، انہی امور کا ثبوت آپ کو احادیثِ مبارکہ سے ملے گا۔ ‘‘ 3. دوسروں کے اعمال سے میت کو فائدہ: دعا: اخوت، قرابت داری اور دوستی کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے تعلق داروں کے لیے ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی انھیں اپنی نیک دعاؤں میں یا د رکھے۔ ایک تو اس سے احباب کو فائدہ پہنچتا ہے اور دوسرا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی قبولیت کے لیے یہ موثر ترین ذریعہ ہے۔ نبی اکرم کا ارشادِ گرامی ہے: (( دُعَائُ المَرْئِ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابٌ لِأَخِیْہِ بِظَہْرِ الْغَیْبِ، عِنْدَہُ مَلَکٌ مُوَکَّلٌ بِہِ، کُلَّمَا دَعَا لِأَخِیْہِ بِخَیْرٍ قَالَ الْمَلَکُ: آمِیْنَ وَلَکَ بِمِثْل )) [1] ’’مسلمان کی اپنے بھائی کی عدمِ موجودگی اس کے حق میں دعا اللہ تعالیٰ کے حضورمقبول ہوتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر کردیا جاتاہے، جب بھی یہ مسلمان اپنے بھائی کے لیے کوئی نیک دعا کرتا ہے تو وہ ملک مؤکل آمین کہتا ہے اور ساتھ ہی یہ دعا بھی دیتا ہے کہ یہ خیر و بھلائی اللہ تعالیٰ آپ کو بھی عطا کرے۔‘‘ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے اقربا و احباب کے لیے دعا کو اپنا شیوہ بنا لے۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۷۱۰۵).