کتاب: سوئے منزل - صفحہ 250
لوگ ان سے مستفید ہوتے ہوں ، جب تک لوگ ان مشاریع اور اوقاف سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے، ان منصوبہ جات کو جاری کرنے والے کو ان کا ثواب پہنچتا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى﴾ [النجم: ۳۹]
’’ اور یہ کہ انسان کو صرف اسی کے عمل کا بدلہ ملے گا۔‘‘
اور اولاد بھی والدین کی سعی اور کمائی کا ایک حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
(( إِنَّ أَطْیَبَ مَا أَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسْبِہِ وَ إِنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ مِنْ کَسْبِہِ )) [1]
’’سب سے پاکیزہ روزی وہ ہے جو انسان اپنی محنت اور کمائی سے کھاتا ہے اور اس کی اولاد بھی اسی کی سعی و کوشش کا ایک حصہ ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ ﴾ [یٰسٓ: ۱۲]
’’بے شک ہم فوت شد گان کو زندہ کریں گے اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے اور (جو) ان کے نشان پیچھے رہ گئے ہم ان کو قلم بند کر لیتے ہیں اور ہر چیزکو ہم نے کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں لکھ رکھا ہے۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں ﴿ مَا قَدَّمُوا ﴾ سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان خود اپنی زندگی میں سر انجام دیتا ہے اور ﴿ آثَارَهُمْ ﴾ سے مرادوہ آثار یا عملی نمونے ہیں ، جو وہ دنیا
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۳۷۸) سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۳۷۳) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہاہے.