کتاب: سوئے منزل - صفحہ 25
جاتے ہیں اور یہ سچ ہے کہ امیدوں اور حقیقتوں کے درمیان توازن رکھنے والا شخص کبھی پریشان نہیں ہوتا۔ ہمیشہ یہ احساس دامن گیر رہنا چاہیے: ع میں اس حسرت سرائے آب و گل میں بحکم خاص بھجوایا گیا ہوں موت کو ہمیشہ یاد رکھو: ارشادِ ربانی ہے: ﴿ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ﴾ [الواقعۃ: ۶۰] ’’ہم نے تمھارے درمیان موت مقدر کر دی ہے اور ہم عاجز بھی نہیں ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ﴾[السجدۃ: ۱۱] ’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !) انھیں بتلا دیجیے کہ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے(وقت مقررہ پر) تمھاری روحیں قبض کرلے گا، پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسی مجلس کے پاس سے ہوا، جس میں لوگ ہنسی و مذاق میں مصروف اور خو ش گپیاں لگار ہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (( أَکْثِرُوْا ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ: اَلْمَوْتَ، فَإِنَّہُ لَمْ یَذْکُرْہُ أَحَدٌ فِيْ ضِیْقٍ مِّنَ الْعَیْشِ إِلاَّ وَسَّعَہُ عَلَیْہِ وَ لَا فِيْ سَعَۃٍ إِلَّا ضَیَّقَہُ عَلَیْہِ )) [1]۔ ’’تم لذتوں کو ختم کرنے والی چیز (یعنی موت) کو بہ کثرت یاد کیا کرو، اس لیے جو شخص اسے پریشان حالی میں یاد کرتا ہے تووہ اس کے لیے
[1] صحیح ابن حبان و صحیح الجامع للألباني، رقم الحدیث (۱۲۱۱).