کتاب: سوئے منزل - صفحہ 246
کے وسائل کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: ﴿ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾، ﴿ يَخْلُقُ ﴾ فعل مضارع ہے، جس میں حال اور استقبال دونوں کا معنی پایا جاتا ہے، لیکن ﴿ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ کے الفاظ اس میں مستقبل کے مفہوم کو متعین کر رہے ہیں- یعنی اللہ تعالیٰ مستقبل میں ایسے وسائل پیدا کرے گا، جن سے آپ موجودہ دور میں آشنا نہیں ہیں- اور یہ ارشادِ گرامی ان نو ایجاد شدہ دنیوی وسائل سے استفادہ کرنے کی اباحیت پر دلالت کرتا ہے اور کلمہ ﴿ مَا ﴾ کے عموم میں تمام تر ایجادات داخل ہیں ، جو قیامت تک ہوتی رہیں گی۔ بہت سی ایسی چیزیں اور ایجادات ہیں ، جو آج ہم دیکھ رہے، لیکن ہم سے پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھیں ، مثلاً: ہوائی جہاز، ٹیلی فون، موبائل فون، فیکس، کمپیوٹر، انٹر نیٹ ریڈار سسٹم، فریزر، ایئرکنڈیشنڈ وغیرہ، اور اسی طرح بہت سی ایسی چیزیں جو آج ہمیں معلوم نہیں ، لیکن ہمارے بعد آنے والے ان سے استفادہ کریں گے اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا حتی کہ ﴿یَرِثُ اللّٰہُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَیْھَا﴾ یعنی قیامت تک۔ آئیے! اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ لاؤڈ سپیکر، ہوائی جہاز، گھڑی، کار اور موبائل فون کا استعمال دینی امور میں داخل اور شریعت کا حصہ ہے، جس طرح اذان اور ایصالِ ثواب عبادت اور دینی کام ہیں ، یا کہ یہ دنیاوی امور ہیں ، جن سے جائز حد تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہم چند امور پر غور کرتے ہیں : 1 اگر گھڑی یا موٹرکار اور موبائل فون وغیرہ دین کا حصہ ہیں تو جس کے پاس گھڑی، کار یا موبائل فون نہیں کیا، اس کا دین ناقص ہے؟ 2 اگر لاؤڈ سپیکر کا استعمال دینی امر ہے تو کیا لاؤڈ سپیکر کے بغیر اذان مکمل ہے یا ناقص؟ 3 کیا لاؤڈ سپیکر میں اذان دینے سے اذان کے کلمات میں کچھ اضافہ یا تبدیلی واقع ہوتی ہے؟