کتاب: سوئے منزل - صفحہ 245
سپیکر میں اذان ہوتی تھی؟ 2.کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی گھڑی با ندھی تھی؟ 3.کیا آپ نے کبھی کار یا ہوائی جہاز پہ سواری کی تھی؟‘‘ 4.کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موبائل فون استعمال کیا تھا؟ وغیرہ۔ اگر قبر پر اذان دینا اور قل اور چالیسواں بدعت ہے تو کیا مذکورہ اشیا کا استعمال بدعت نہیں ؟
برادرانِ اسلام! آئیے! ہم مذکورہ اعتراضات کا کتاب و سنت کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ ان اعتراضات کی حقیقت کیا ہے؟اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ دین کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ﴾ کہ میں نے دین کی تکمیل کر دی ہے، یعنی اب اس میں کمی یا زیادتی کرنا حرام اور (اِحداث فی الدین) ہے اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(( مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ )) [1]
تمام علمائے امت کے نزدیک (( فِيْ أَمْرِنَا ہَذَا )) سے مراد امورِ دین ہے۔ یعنی دین کے احکام میں کمی یا زیادتی بدعت ہے۔ اور جہاں تک دنیاوی امور اور نئی ایجادات کا تعلق ہے تو اگر یہ امورِ دین سے متصادم یا دین کے لیے نقصان دہ نہ ہوں تو ان سے استفادہ مبا ح ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ [النحل: ۸]
’’اور اُسی (اللہ تعالیٰ) نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے، تاکہ تم اُن پر سوار ہو اور (وہ تمھارے لیے) رونق و زینت (بھی ہیں ) اور وہ (اور چیزیں بھی) پیدا کرے گا جوتمھیں معلوم نہیں ہیں- ‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس دور میں موجود سواری اور باربرداری
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۶۹۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۵۸۹).