کتاب: سوئے منزل - صفحہ 244
بے بنیاد شبہہ:
یہ دعویٰ (اگر چہ آپ نے یہ کام کیا تو نہیں لیکن اس سے منع بھی تو نہیں کیا) بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پاؤں مسجد میں رکھے، اور جب اسے ٹوکا جائے کہ، بھئی! یہ سنت کے خلاف ہے تو وہ آگے سے جواب دے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو نہیں ، لیکن منع بھی تو نہیں کیاہے، یا کوئی شخص نمازِ مغرب کے فرض تین کے بجائے چار پڑھے اور اس کا یہ نظریہ ہو کہ اس طرح ایک رکعت کا ثواب مزید حاصل ہو گا اور جب روکا جائے کہ یہ سنت کی مخالفت ہے تو وہ آگے سے جواب دے، کہ ٹھیک ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ مغرب کے چار فرض کبھی نہیں ادا کیے، بلکہ تین ہی پڑھے ہیں ، لیکن چار پڑھنے سے منع بھی تو نہیں کیا، اگر کیا ہے تو حوالہ (ریفرنس) دیجیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حدیث میں فرمایا ہے کہ مغرب کی چار رکعت مت پڑھو۔
بھئی! یہ تو کج بحثی اور عُذرِ لنگ ہے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، اسے کرنا سنت اور جو نہیں کیا، اسے نہ کرنا سنت ہے اور یہی عبادات میں اصل ہے، جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’نَتَّبِعُ الرَّسُوْلَ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِعْلًا وَ تَرْکاً‘‘[1]
’’فعل و ترک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تباع لازم ہے۔‘‘
دوسرا شبہہ:
اگر ہمیں صرف وہی کام کرنا چاہیے، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا ہو تو بتلائیے: 1.کیا آپ کے دور میں لاؤڈ
[1] شرح الزرقاني علی موطأ الإمام مالک (۲/ ۳۳۱).