کتاب: سوئے منزل - صفحہ 241
’’یہ بات بہ خوبی جان لیجیے کہ جب تک کسی عمل میں دوقسم کے اوصاف نہ پائے جائیں ، تب تلک اس کے اجر و ثواب کا حصول نا ممکن ہے۔ (ایک) اخلاص یعنی اس عمل کا ہر قسم کی آمیزش (شرک و ریاکاری وغیرہ) سے پاک ہونا اور (دوسرا) رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی (متابعت) کو شرط قرار دیا ہے، یعنی وہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ [النور: ۶۳]
’’آپ (رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( کُلُّ أُمَّتِيْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ إِلَّا مَنْ أَبٰی )) قِیْلَ وَمَنْ أَبٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ِ؟ قَالَ: (( مَنْ أَطَاعَنِيْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِيْ فَقَدْ أَبٰی )) [1]
’’میری تمام امت جنت میں جائے گی، سوائے اس کے جس نے (جنت میں جانے سے) انکار کیا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ انکار کرنے والا کون ہے؟ فرمایا: ’’جس نے میری پیروی کی، وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی تو گویا اس نے (جنت میں جانے سے) انکار کر دیا۔‘‘
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۷۳۷).