کتاب: سوئے منزل - صفحہ 240
’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی تابعداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔‘‘ یعنی جو عمل حکمِ الٰہی اور سنتِ رسول مقبول کے مطابق نہیں ہو گا، وہ ضائع اور بیکار ہے۔ لہٰذا ایمانِ کامل کے بعد اعمال کی قبولیت کے لیے دو لازمی شرطیں ہیں : 1 اخلاص: یعنی وہ عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو، اس میں کسی قسم کی ریا کاری یا دکھلاوا نہ ہو اور نہ شہرت پسندی مقصود ہو۔ ایسے اعمال جن میں ریا یا شہرت حاصل کرنا مقصود ہو اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود اور مستوجبِ سزا ہیں- 2 متابعت: یعنی وہ عمل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو جو حدیثِ صحیحہ سے ثابت شدہ ہے۔ اور ہر وہ عمل جو خلافِ سنت ہے، بدعت کہلاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مردود ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث ہی اسی لیے فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو عبادت کے طریقے سکھائیں اور آپ نے با کمال امانت و دیانت سے مکمل دین امت کو سکھا دیا اور سمجھا دیا، لہٰذا جو عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنہری تعلیمات سے ہٹ کر ہو گا، وہ بارگاہِ الٰہی میں مردود ہے۔ بقول شاعر: ؎ نہ فرمانِ حق ہو نہ حکمِ پیمبر، نہ قولِ صحابہ نہ اجماعِ اُمت کریں ہم مگر کارِ دینی سمجھ کر وہ بدعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟ مطیعِ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مطیعِ خدا ہے، اطاعتِ نبی کی خدا کی اطاعت جو اس فارمولے سے باہر عمل ہو، ضلالت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟ اور کسی عربی شاعر نے کہا ہے: ؎ وَاِعْلم بِأَنَّ الْأَجْرَ لَیْسَ بِحَاصِلٍ إِلاَّ إِذَا کَانَتْ لَہٗ صِفَتَانِ لاَ بُدَّ مِنْ إِخْلاَصِہِ وَنَقَائِہِ وَخُلُوِّہِ مِنْ سَائِرِ الْأَدْرَانِ وَکَذَا مُتَابَعَۃُ الرَّسُوْلِ فَإِنَّہَا شَرْطٌ بِحُکْمِ نَبِیِِّنَا الْعَدْنَانِ