کتاب: سوئے منزل - صفحہ 239
الْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰہَ كَثِيرًا ﴾ [الأحزاب: ۲۱] ’’یقینا تمھارے لیے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شخصیت مبارکہ میں بہترین نمونہ موجود ہے، یہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی امید رکھتا اور ذکرِ الٰہی کثرت کے سا تھ کرتا رہتا ہے۔‘‘ اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اتباع و اطاعت کو علامتِ محبت قرار دیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾ [آل عمران: ۳۱] ’’آپ فرما دیجیے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع و پیروی کرو، اس طرح اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ اس مختصر تمہید سے بہ خوبی واضح ہو چکا ہے کہ دینِ اسلام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کا نام ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں وہی عمل قابلِ قبول ہو گا، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو گا اور وہی نیکی کہلائے گا۔ أَمْرٌ عَلَیْہِ سِکَّۃٌ نَبَوِیَّۃٌ وَضَرْبُ الْمَدِ یْنَۃِ أَشْرَفِ الْبُلْدَانِ اور جو عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہو گا وہ دین میں اضافہ اور بدعت کہلائے گا اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مسترد اور غیر مقبول ہوگا اور اگر کسی نے اپنی من مانی ہی کرنی ہے تو پھر اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی کیا ہے؟! اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰہَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴾ [محمد: ۳۳]