کتاب: سوئے منزل - صفحہ 238
نعمت تم پر پوری کردی، اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لیے پسند کر لیا۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا: ’’وَلاَ یَصْلُحُ آخِرُ ہَذِہِ الأُمَّۃِ إِلاَّ بِمَا صَلُحَ بِہٖ أَوَّلُہَا، فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لاَ یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا‘‘ یعنی اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح بھی اسی چیز کے ساتھ ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اس امت کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی، لہٰذا جو کام اس وقت دین نہیں تھا، وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا۔ قارئینِ کرام! دین مکمل اور قرآن و حدیث کی صورت میں قیامت تک لیے محفوظ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو اسی دین پر کاربند رہنے کی وصیت فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِيْ، وَلَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ )) [1] ’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، تم انھیں مضبوطی سے تھامنے کے بعد ہرگزگمراہ نہیں ہو گے: ایک اللہ کی کتاب (قرآن کریم) اور دوسری میری سنت (حدیث پاک)۔ اور یہ دونوں (باہم دیگر لازم وملزوم ہیں ) کبھی جدا نہیں ہوں گی حتی کہ حوض پر بھی (دونوں ایک سا تھ) میرے پاس آئیں گی۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کی اطاعت ہم پر فرض کی ہے اور آپ کی سیرتِ طیبہ کو ہمارے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّٰہَ وَ
[1] صحیح الجامع، رقم الحدیث (۲۹۳۷).