کتاب: سوئے منزل - صفحہ 235
ہَا أَنَا ذَا فِيْ التُّرَابِ وَحْدِيْ فَلاَ ظَہِیْرٌ وَ لاَ نَصِیْرٌ
بِاللّٰہِ ہَبْ لِيْ دُعَائَ صِدْقٍ یَسْمُوْ بِہِ بَاعِيَ الْقَصِیْرُ
أَسْرَفْتُ یَا رَبِّ فِيْ خَطَایَا أَنْتَ بِہَا عَالِمٌ بَصِیْرٌ
فَامْنُنْ بِعَفْوٍ وَ جُدْ بِرُحْمٰی إِلَیْکَ یَا رَبِّيْ الْمَصِیْرُ
قارئینِ کرام! ایصالِ ثواب شرعی مسئلہ ہے، جو نصوصِ صریحہ سے ثا بت ہے، یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے، کیوں کہ نصِ صریح کی موجودگی میں اجتہاد جائز نہیں ہے۔ یعنی میت کو بعد از وفات کن اعمال کا ثواب پہنچتا اور فائدہ حاصل ہوتا ہے، اس کی وضاحت قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامینِ گرامی اور آپ کی سیرتِ طیبہ (حدیث پاک) سے معلوم کی جائے گی، کیوں کہ آپ پر دینِ اسلام کی تکمیل ہو چکی ہے، اب اپنی طرف سے اس میں کمی یا زیادتی کرنا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾ [المائدۃ: ۳]
’’آج کے دن میں نے تمھارے لیے دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور اسلام کو بطور دین تمھارے لیے پسند کر لیا ہے۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
(( مَا بَقِيَ شَیْیئٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلاَّ وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ )) [1]
’’ کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی جو جنت سے قریب کرنے اور جہنم سے دور کرنے والی ہے، مگر اسے تمھارے لیے بیان کیا جا چکا ہے۔‘‘
[1] السلسلۃ الصحیحۃ للألباني (۱۸۰۳).