کتاب: سوئے منزل - صفحہ 231
لیکن اگر شوہر کے گھر پر عدت گزارنا ممکن نہ ہو، مثلاً: کرایہ کا مکان اس کا مالک خالی کروالے یا موجودہ مکان میں عورت کے لیے اکیلے رہنا مشکل ہو، وہاں پہ اس کی عزت و آبرو یا جان و مال محفو ظ نہ ہوں یا کسی دوسرے ملک میں ہوں ، جہاں شوہر کے بغیر رہنے کا کوئی جواز نہ ہو تو پھر اس کے لیے (شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے) جہاں پہ مناسب ہو، عدت گزار سکتی ہے۔
جیساکہ فُریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا ، بیان کرتی ہیں کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے پاس واپس جانے کی اجازت مانگی (تاکہ وہاں آرام و سکون کے ساتھ عدت گزار سکیں )، اس لیے کہ ان کے شوہر اپنے کچھ بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلے، یہاں تک کہ انھوں نے ’’طرف القدوم‘‘ مقام پر ان کو جا لیا تو غلاموں نے مل کر ان کو قتل کر ڈالا۔ (انھوں نے کہا): میرے شوہر نے میرے لیے نہ تو کوئی ایسا گھر چھوڑا جو ان کی ملکیت میں تھا، اور نہ ہی اخراجات کے لیے پیسے چھوڑے ہیں-
وہ کہتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ‘‘ میں واپس لوٹ گئی، یہاں تک کہ جب میں گھر پہنچ گئی، اور میں اپنے گھر کے کمرے میں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مجھے بلاوا آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دوبارہ پوچھا: تم نے کیا کہا تھا؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سا منے پورا واقعہ دہرایا، اور اپنے شوہر کی بات بتلائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم عدت کے ختم ہونے تک اپنے ہی گھر میں رہو۔‘‘ وہ کہتی ہیں : پھر میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن کی عدت گزاری۔[1]
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس عورت کا شوہر وفات پاگیا، وہ اسی گھر میں عدت گزارے گی، جس میں وہ رہتی تھی، چاہے وہ گھر اس کا ہو یا اس کے شوہر کا،
[1] مسند أحمد (۳/ ۳۷۰).