کتاب: سوئے منزل - صفحہ 226
پابندی کرتے ہوئے گزارتی ہے، اور یہ اس کے شوہر کی وفات کے دن سے شروع ہوکر اس مدت کے ختم ہونے تک رہتی ہے۔
عورت کے لیے شوہر کی وفات پر عدت گزارنا واجب ہے۔ یہ عدت قمری حساب سے چار ماہ اور دس دن ہے اور ہر اس عورت پر لازم ہے، جو وفات کے وقت متوفی کے نکاح میں ہو، خواہ صحبت کی ہو یا نہ کی ہو، چاہے وہ بیوی کم سن ہو یا عمر رسیدہ یا طلاقِ رجعی کی عدت میں ہو، کیوں کہ عدتِ وفات استبرائے رحم معلوم کرنے کے لیے نہیں ، بلکہ نکاح کی قدر و منزلت اور شوہر کے احترام اور اس کے حقوق کی پاسداری کے لیے ہے۔اوریہ حکم ﴿ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ﴾ [البقرۃ: ۲۳۴] عام ہے۔
عدت کا آغاز:
عدت کا اعتبار شوہر کی وفات کے دن ہی سے ہو گا، اور یعنی وفات کا دن عدت کا پہلا دن شمار کیا جائے گا، چاہے عورت کو اسی دن وفات کی خبر ملے یا اس کے بعد۔ حتی کہ اگر کسی عورت کو اس کے شوہر کی وفات کی خبر چار ماہ دس دن کے بعد ملے، تو اس کی عدت کی مدت ختم ہوگئی، اس کے لیے پھر نئے سرے سے عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بیوہ (جس کا شوہر فوت ہو جائے) کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:
﴿ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴾[البقرۃ: ۲۳۴]