کتاب: سوئے منزل - صفحہ 223
’’جب تمھیں سلام کہا جائے تو اس کا بہتر طریقے سے جواب دو یا کم ازکم اسی طرح سے اس کا جواب لوٹاؤ، بے شک اللہ تعالیٰ ہرچیز کا حساب لینے والا ہے۔‘‘ علامہ قرطبی رحمہ اللہ اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’فَفِقْہُ الآیَۃِ أَنْ یُّقَالَ: أَجْمَعَ الْعُلَمَائُ عَلَی أَنَّ الْإِبْتِدَائَ بِالسَّلامِ سُنَّۃٌ مُرَغَّبٌ فِیْہَا، وَرَدُّہٗ فَرِیْضَۃٌ‘‘[1] ’’آیتِ کریمہ کے مفہوم کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ علمائے امت کا اس پر اجماع ہے کہ سلام کہنے میں ابتدا کرنا پسندیدہ سنت ہے اور سلام کا جواب دینا فرض ہے۔‘‘ اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں : (( إِذَا سَلَّمَ عَلَیْکُمُ الْمُسْلِمُ فَرُدُّوْا عَلَیْہِ أَفْضَلَ مِمَّا سَلَّمَ أَوْ رُدُّوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا سَلَّمَ بِہِ۔ فَالزِّیَادَۃُ مَنْدُوْبَۃٌ وَالْمُمُاثَلَۃُ مَفْرُوْضَۃٌ )) [2] ’’جب کوئی مسلمان آپ کو سلام کہے تو اسے اس کا بہتر جواب دیجیے یا اس کے سلام کی طرح کا جواب دیجیے۔ کیونکہ زیادتی مندوب اور برابری فرض ہے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّلاَمِ، وَعِیَادَۃُ الْمَرِیْضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَإِجَابَۃُ الدَّعْوَۃِ، وَتَشْمِیْتُ الْعَاطِسِ )) [3] ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں : سلام کا جواب دینا، مریض کی
[1] تفسیر القرطبي (۵/۳۰). [2] تفسیر ابن کثیر (۲/ ۳۶۸). [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۲۴۰، مسلم، رقم الحدیث ( ۲۱۶۲).