کتاب: سوئے منزل - صفحہ 222
أَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ، وَ یَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَ إِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلاَحِقُوْنَ )) [1]
’’آپ کے رب نے حکم دیا ہے کہ آپ جاکر اہلِ بقیع کے لیے بخشش کی دعاکریں- تو میں نے عرض کی: (میں جب وہاں جاؤں ) تو ان کے لیے کیا دعا کروں ؟ تو آپ نے فرمایا: یوں کہو: سلامتی ہو اِن گھر وں میں رہنے والے مومنو اور مسلمانوں پر! اللہ تعالیٰ رحم کرے ہم میں سے آگے جانے والوں پر بھی اور پیچھے آنے والوں پر بھی اور ہم بھی اگراللہ نے چاہا تو تمھارے ساتھ ملنے ہی والے ہیں-‘‘
یاد رہے! کہ قبرستان والوں کو سلام کہنا سلامِ دعا ہے، یعنی قبروں میں مدفون لوگوں کے لیے محض سلامتی کی دعا ہے، جس کا جواب دینا ان پر لازم نہیں ، کیوں کہ وہ اسے سنتے نہیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللّٰہَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ﴾ [الفاطر: ۲۲]
’’زندہ اور فوت شدہ برابر نہیں ہیں ، بے شک اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنوا سکتا ہے، مگر (اے نبی) آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں-‘‘
جبکہ زندہ لوگوں کو سلام کہنا سلامِ تحیہ ہے جسے سن کر جواب دینا لازمی اور سلام کہنے والے مسلمان کا حق ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللّٰہَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ﴾ [النساء: ۸۶]
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۷۴).