کتاب: سوئے منزل - صفحہ 221
تین مقامات کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف شدِ رحال کرنا (باہتمام رختِ سفر باندھ کر جانا) جائز نہیں ہے۔ اور بالخصوص عصرِ حاضر میں ایسے مواقع پر جس قدر بے پردگی اور نوحہ خوانی اور اہلِ قبور سے دعا واستغاثہ کے جو مناظر دیکھنے میں آتے ہیں اس کے پیشِ نظر تو عورتوں کے لیے قبرستان کی زیارت کے لیے جانا قطعاً درست نہیں ہے۔ 2 دوسری رائے یہ ہے: مردحضرات کی طرح چونکہ عورتوں کے لیے بھی آخرت کی یاد تازہ کرنا ضروری ہے، لہٰذا وہ چند شرعی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کبھی کبھار قبرستان کی زیار ت کے لیے جا سکتی ہیں ، کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے منع فرمایا تھا، بعد میں اس کی اجازت دے دی تھی اور یہی نظریہ قرینِ صواب ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْہَا فَإِنَّہَا تُذَکِّرُ الآخِرَۃ )) ’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، لیکن اب تم ان کی زیارت کیا کرو، کیوں کہ قبروں کی زیارت تمھیں آخرت کی یاد دلائے گی۔‘‘ یہ اجازت خواتین اور مردوں کے لیے عام ہے، لیکن ’’زَوَّارَاتِ الْقُبُوْر‘‘ کے الفاظ سے ظاہرہے کہ عورتوں کے لیے اجازت عمومی نہیں ہے، بلکہ وہ چند شرعی پابندیوں کا اہتمام کرتے ہوئے کبھی کبھار تو جا سکتی ہیں ، لیکن بہ کثرت نہیں- اور بعض روایات میں موجود لفظ ’’الزائرات‘‘ کو بھی ’’الزَوَّارَات‘‘ پر ہی محمول کیا جائے گا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔ جبریل امین نے مجھے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا: (( إِنَّ رَبَّکَ یَأْمُرُکَ أَنْ تَأْتِيَ أَہْلَ الْبَقِیْعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَہُمْ، قَالَتْ: قُلْتُ: کَیْفَ أَقُوْلُ لَہُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟! قَالَ: قُوْلِيْ: اَلسَّلامُ عَلٰی