کتاب: سوئے منزل - صفحہ 217
کلمات ادا کیے جا سکتے ہیں جو خلافِ شرع نہ ہوں اور ان میں صبر و دلاسا کا مفہوم پایا جاتا ہو۔‘‘
میت کے لو احقین کے لیے کھانے کا اہتمام:
مسنون طریقہ یہ ہے کہ اہلِ میت کے لیے کھانے کا اہتمام کیا جائے نہ کہ غم و اندوہ کی کیفیت میں مبتلا میت کے لواحقین کو مہمانوں کے خورد و نوش کے اہتمام کی زحمت سے دوچار کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفر طیار کی جنگِ مؤتہ میں شہادت کی خبر مدینہ طیبہ میں پہنچی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِصْنَعُوْا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَاماً، فَإِنَّہٗ قَدْ أَتَاہُمْ أَمْرٌ یُشْغِلُہُمْ )) [1]
’’حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا اہتمام کرو، کیوں کہ اس وقت وہ کیفیتِ غم اور صدمے سے دو چارہیں-‘‘
میت کے اہلِ خانہ کا مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام کرنا:
میت کے اہلِ خانہ کے ہاں جمع ہونا اور اس غرض سے میت کے لواحقین کی طرف سے آنے والوں کے لیے خصوصی طور پر کھانے کا اہتمام غیر مسنون عمل ہے۔ چنانچہ حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
(( کُنَّا نَعُدُّ (وَفِيْ رَِوایَۃٍ: نَرَیَ) الْإِِجْتِمَاعَ إِلَی أَہْلِ الْمَیِّتِ وَصَنْعَۃَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِہِ مِنَ النِّیَاحَۃِ )) [2]
’’ہم دفن کے بعدمیت کے اہلِ خانہ کے ہاں جمع ہونے اور (ان کی
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۱۳۲) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۹۹۸) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۶۱۰).
[2] مسند أحمد (۲/ ۲۰۴) رقم الحدیث (۶۹۰۵) سنن ابن ماجۃ، رقم الحدیث (۱۶۱۲).