کتاب: سوئے منزل - صفحہ 214
تعزیت: مصیبت اور غم میں کسی کو تسلی دینا اور دلجوئی کرنا مسنون اور انتہائی افضل اور باعث اجر و ثواب عمل ہے۔اسی کے پیش نظر یہ طریقہ چلا آیا ہے کہ لوگ میت کے لواحقین سے تعزیت کرتے اور اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں ورنہ ہیں توسبھی ایک ہی منزل کے راہی۔ بقول شاعر: ؎ اِنِّيْ مُعَزِّیْکَ لاَ أَنِّيْ عَلَی ثِقَۃٍ مِنَ الْحَیَاۃِ وَلَکِن سُنَّۃُ الدِّیْنِ فَمَا الْمُعَزَّي بِبَاقٍ بَعْدَ مَیِّتِہِ وَلاَ الْمُعَزِّيْ وَلَوْ عَاشَا إِلَی حِیْنٍ ’’میں آپ کے ساتھ تعزیت اس لیے نہیں کررہا کہ میں کوئی حیات جاوید کا سندیسہ لے کر آیا ہوں ، بلکہ یہ تو ایک سنتِ دین ہے۔ میت کے بعد نہ تو معزَّی (میت کے لواحقین) کے لیے بقائے دوام ہے اور نہ ہی (معزَّی) یعنی تعزیت کرنے والا سدا باقی رہے گاگرچہ وہ زندگی کی کتنی ہی بہاریں اور کیوں نہ دیکھ لیں-‘‘ تعزیت: ’’ تَعْزِیَۃٌ‘‘ عَزّٰی یُعَزِّيْ سے مصدر ہے جس کا معنی کسی کو تسلی دینا اور صبرکی تلقین کرنا ہے، تاکہ اس کا غم ہلکا ہو۔ اور لفظ (عزاء) بھی تعزیت کے معنی میں مستعمل ہے۔ علامہ شو کانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’أَصْلُ الْعَزَائِ فِيْ اللُّغَۃِ: اَلصَّبْرُ الْحَسَنُ، وَالتَّعْزِیَۃُ: اَلتَّصَبُّرُ وَ عَزَّاہٗ: صَبَّرَہٗ‘‘[1] تعزیت کرنا سنت ہے اور کسی وقت بھی (دفن سے پہلے یا بعد) تعزیت کی جاسکتی ہے۔ حضرت عمروبن حزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَا مِنْ مُؤْمِنٍ یُعَزِّيْ أَخَاہٗ بِمُصِیْبَۃٍ إِلاَّ کَسَاہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ
[1] نیل الأوطار (۵/ ۱۹۳).