کتاب: سوئے منزل - صفحہ 213
کہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھے۔‘‘
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے قاصد کو دوبارہ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دے کر ضرور بالضرور آنے کی درخواست کی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت سعد بن عبادہ ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور چند دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ اپنی پیاری بیٹی کے گھر تشریف لائے۔ اُس بچے کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود مبارک میں رکھ دیا گیا، اُس وقت وہ موت وحیات کی کشمکش میں تھا اور اِس طرح حرکت کر رہا تھا، جیسے ایک پرانے مشکیزے میں حرکت ہوتی ہے‘بچے کی یہ کیفیت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! یہ آنسو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ہٰذِہٖ رَحْمَۃٌ جَعَلَہَا اللّٰہُ فِيْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ، وَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَائَ )) [1]
’’یہ وہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ودیعت کر رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں-‘‘
اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندِ گرامی سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
(( إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا یَرْضٰی رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ )) [2]
’’بے شک آنکھیں اشکبار ہیں ، اور دل غمگین ہے، لیکن ہم صرف وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے رب کو راضی کرنے والی ہے۔ اور اے ابراہیم! بلاشبہہ ہم آپ کے فراق میں بہت ہی غمزدہ ہیں-‘‘
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۲۸۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۲۳).
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۰۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۳۱۵).