کتاب: سوئے منزل - صفحہ 212
(( أَرْبَعٌ فِيْ اُمَّتِيْ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ لاَ یَتْرُکُوْنَہُنَّ اَلْفَخْرُ فِيْ الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِيْ الْأَنسَابِ، وَالْاِسْتِسْقَائُ بِالنُّجُوْمِ، وَالنِّیَاحَۃُ وَقَالَ: اَلنَّائِحَۃُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِہَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلَیْہَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرْبٍ )) [1] ’’میری امت میں زمانۂ جا ہلیت کی چار ایسی خصلتیں باقی رہیں گی جنھیں چھوڑنے پر لوگ جلدی آمادہ نہیں ہوں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسرے کے نسب پر طعنہ زنی کرنا، ستاروں کے ذریعے بارش کے حصول کا اعتقاد، اور نوحہ خوانی کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نوحہ خوانی کرنے والی عورت نے موت سے قبل اپنے اس فعل سے توبہ نہ کی تو قیامت کے دن اس کو گندھک کی شلوار اور خارش کی قمیض پہنا کر کھڑا کیا جائے گا۔‘‘ لیکن زبان سے جزع فزع کیے بغیر صدمہ کے وقت آنکھوں سے آنسوؤں کا جاری ہونا صبر کے منافی نہیں ، بلکہ فطری تقاضا ہے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لختِ جگر (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ) نے آپ کے پاس بیغام بھیجا کہ ان کا ایک بچہ قریب المرگ ہے۔ لہٰذا آپ ان کے گھر تشریف لائیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد سے کہا کہ انھیں میری طرف سے سلام پہنچائیے اور پیغام دیجیے: (( إِنَّ لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَلَہُ مَا أَعْطیٰ، وَکُلُّ شَیْیٍٔ عِنْدَہُ بِأَجَلٍ مُّسَمّٰی وَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ )) ’’اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے جو کچھ اس نے لیا اور جو کچھ اس نے عطا کیا۔ اور ہر ایک کی موت کا وقت متعین ہے۔ لہٰذا (میری بیٹی سے کہیے:)
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۵۵۰).