کتاب: سوئے منزل - صفحہ 211
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیْبُہُ أَذًی، مِنْ مَّرَضٍ فَمَا سِوَاہُ، إِلَّا حَطَّ اللّٰہُ بِہِ سَیِّئَاتِہٖ کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَۃُ وَرَقَہَا )) [1] ’’جس مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے، کوئی بیماری لاحق ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور دکھ پہنچے، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے، جیسے (موسمِ خزاں میں ) کوئی درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔‘‘ نوحہ خوانی اور ماتم کی مذمت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اپنی امت کو صبر کی تلقین فرمائی اور اس کی فضیلت و اہمیت کو اُجاگر کیا اور اس کے فوائد و ثمرات سے آگاہ فرمایا ہے، وہاں آپ نے بے صبری، جزع و فزع، نوحہ خوانی، ماتم اور بین کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور اس پر وعیدِ شدید سے امت کو متنبہ کیا ہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُیُوْبَ وَدَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ )) [2] ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخساروں کو پیٹا، گریبان کو چاک کیا اور دورِ جاہلیت کی طرز پر آواز بلند کی (یعنی واویلا کیا اور مصیبت کے وقت ہلاکت اور موت کو پکارا اور بین کرتے ہوئے کہا کہ تیرے بعد ہمارا کون ہے؟، توہی ہمارا سہارا اور کارساز تھا وغیرہ کہا)۔‘‘ نیز حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۳۳۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۴۶۷). [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۲۹۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۰۳).