کتاب: سوئے منزل - صفحہ 208
فرماتے ہیں : تم میرے (اس) بندے کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کردواور اس کا نام بیت الحمد (شکرانے کا گھر) رکھ دو۔‘‘ حضرت قرۃ بن ایاس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا، اُس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا بھی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تمھیں اس سے محبت ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! جس طرح میں اس سے محبت کرتا ہوں اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ سے محبت کرے۔ پھر (کچھ عرصہ بعد) اُس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آنا چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: فلاں آدمی کہاں ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اس کا بیٹا فوت ہو چکا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے باپ سے ملے اور تعزیت کرنے کے بعد فرمایا: (( أَمَا تُحِبُّ أَن لَّا تَأْتِيَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ إِلَّا وَجَدْتَّہُ یَنْتَظِرُکَ )) ’’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ تم جنت کے جس دروازے پر آئیں اسے اپنا انتظار کرتے ہوئے پائیں ؟‘‘ اور نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَا یَسُرُّکَ أَن لَّا تَأْتِيَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ إِلَّا وَجَدْتَّہُ عِنْدَہُ یَسْعٰی یَفْتَحُ لَکَ )) ’’کیا تمھیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ تم جنت کے جس دروازے پر بھی آؤ اسے اپنے سامنے پاؤ اور وہ دوڑ کر تمھارے لیے اس دروازے کو کھول دے؟‘‘ تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بات صرف اِس صحابی کے لیے خاص ہے یا ہم سب کے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سب کے لیے ہے۔‘‘ [1]
[1] رواہ أحمد (۱۵۶۳۳) سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۸۷۱، ۲۰۸۸) وصححہ الألباني.