کتاب: سوئے منزل - صفحہ 203
کریں ، آپ کو کیا معلوم کہ مجھ پر کتنی بڑی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے! پھرجب اسے بتایا گیا کہ آپ کو نصیحت کرنے والے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو وہ پریشان ہو گئی اور فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچی، جہاں کوئی پہرے دار نہ تھا، چنانچہ وہ سیدھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوگئی اور عرض کرنے لگی: (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !) میں آپ کو نہیں پہچان سکی تھی، (لہٰذا مجھے معاف فرما دیجیے! میں اب صبر کر وں گی) توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلیٰ )) [1] ’’صبر تو ابتدائے صدمہ ہی میں ہوتا ہے۔‘‘ اور حضرت ابو امامۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: یَا ابْنَ آدَمَ! إِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی، لَمْ أَرْضَ لَکَ ثَوَابًا دُوْنَ الْجَنَّۃِ )) [2] ’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرما تے ہیں کہ اے ابنِ آدم! اگر تونے میری رضا کی خاطر ابتدائے صدمہ سے ہی صبر کا مظاہرہ کیا تو میں تیرے لیے جنت سے کم کسی ثواب کو پسند نہیں کروں گا۔‘‘ نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ [البقرۃ: ۱۵۳] ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرو، یقینا اللہ سبحانہ و تعالیٰ صبر کرنے والوں کے سا تھ ہے۔‘‘
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۲۸۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۲۶). [2] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۵۹۷).