کتاب: سوئے منزل - صفحہ 202
’’مصائب میں صبر اپنے مسمی (مُصَبَّرْ) کی طرح کڑوا تو بہت ہوتا ہے، لیکن اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔‘‘
صبر کا مفہوم:
’’صبر‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ اوراسکی حقیت کیا ہے؟ ’’صبر‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ’’خود کو روکنا اور اپنے اوپر کنٹرول کرنا‘‘ ہے۔ اور علما نے صبر کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کی ہے:
’’ہُوَ حَبْسُ النَّفْسِ عَنِ الْجَزَعِ وَالتَّسَخُّطِ، وَ حَبْسُ اللِّسَانِ عَنِ الشَّکْوَیٰ، وَ حَبْسُ الْجَوَارِحِ عَنِ التَّشْوِیْشِ، کَلَطْمِ الْخُدُوْدِ وَشَقِّ الْجُیُوْبِ وَالدُّعَائِ بِالْوَیْلِ والثُّبُوْرِ‘‘[1]
’’اپنے آب کو جزع وفزع اور قضائے الٰہی پر نا پسندید گی کے اظہار سے منع کرنا، اور اپنی زبان کو شکوے سے رو کنا اور اپنے باقی اعضا کو ممنوع کردہ حرکات (رخسار پیٹنے، گریبان چاک کرنے اور جاہلیت کے بین کرنے) سے باز رکھنا ’’صبر‘‘ کہلاتا ہے۔‘‘
اور صبر کی حقیت یہ ہے کہ مصیبت زدہ انسان اسے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر تسلیم کر کے اللہ کی رضا کے لیے اس کے سا منے سرِ تسلیم خم کر دے اور کسی سے اس کا شکوہ نہ کرے اور ابتدائے صدمہ میں ہی صبر وہمت سے کام لے، نہ کہ جب رو اور پیٹ کر تھک ہار جائے اور گلا بیٹھ جائے اور پھر کہے: ’’اچھا بھئی! ہمارا تو صبر ہی ہے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے، جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِتَّقِي اللّٰہَ وَاصْبِرِيْ )) ’’تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صبر کرو۔‘‘ اس نے کہا: بھئی! جائیں اپنا کام
[1] مدارج السالکین (۲/ ۱۵۵).