کتاب: سوئے منزل - صفحہ 201
’’اور کہنے لگے کہ ہائے افسوس یوسف (ہائے افسوس) اور رنج و الم میں (اس قدر روئے کہ) ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا۔‘‘ دکھ اور مصیبت کے یہ ایام صبر و شکیب سے گزار دیے اور یہی کہتے رہے: ﴿ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّٰہِ ﴾ [یوسف: ۸۶] ’’میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرتا ہوں-‘‘ اور یہ حقیقت ہے: ثَلَاثٌ یَعِزُّ الصَّبْرُ عِنْدَ حُلُوْلِہَا وَیَذْہَلُ عَنْہَا عَقْلُ کُلِّ لَبِیْبٍ خُرُوْجُ إِضْطِرَارٍ مِنْ بِلَادٍ تُحِبُّہَا وَفُرْقَۃُ إِخْوَانٍ، وَفَقْدُ حَبِیْبٍ ’’تین قسم کے مصائب پر صبر بہت مشکل، اور ہر اہل خرد کی عقل کو ماؤف کر دیتا ہے: اپنے پسندیدہ وطن سے ملک بدر ہونا، بھائیوں کافراق اور احباب کا بچھڑنا۔‘‘ عزیزانِ من! غم و حزن کی سیاہ راتوں میں صرف ’’صبر‘‘ ہی امید کی کرن اور شمعِ نورہے، جومصیبت زدہ کی ڈھارس بندھاتا اور تسلیم و رضا کا درس دیتا اور مغموم و پریشان کو اللہ کی ناراضی سے بچاتا اور انعامِ الٰہی کا مستحق بناتا ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( وَالصَّبْرُ ضِیَائٌ )) [1] ’’صبر روشنی ہے۔‘‘ اور مثل مشہور ہے کہ ’’صبر کا پھل میٹھا ہوتاہے۔‘‘ وَالصَّبْرُ مِثْلُ إِسْمِہِ فِيْ کُلِّ نَائِبَۃٍ لَکِنْ عَوَاقِبُہُ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ
[1] صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، رقم الحدیث (۲۲۳).