کتاب: سوئے منزل - صفحہ 200
ہوئے اپنی آنکھیں بھی موندھ لوں تو ان کے حق کا عشر عشیر بھی ادا نہیں ہو سکتا، ایک جوانی کا رخصت ہونا اور دوسرا احباب کی جدائی کا صدمہ۔‘‘ ضبط غم اس قدر آسان نہیں صاحب آگ ہوتے ہیں وہ آنسو جو پیے جاتے ہیں یہ صدمے اور غم فطری تقاضے ہیں- جس کے سینے میں بھی دل ہے وہ درد محسوس کرتا اور حادثات و واقعات سے متاثر ہوتا ہے۔ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندِ دل بند اور جگر گوشہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غم زدہ تھے اور فرما رہے تھے: (( إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا یَرْضٰی رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ )) [1] ’’آنکھیں اشک بار اور دل غمگین ہے، اس کے باوجود ہم زبان سے وہی بات کہیں گے جو ہمارے رب کوپسند ہو، اور اے ابراہیم! ہم تیرے فراق میں غم زدہ ہیں۔‘‘ اسی طرح جب برادرانِ حضرت یوسف علیہ السلام نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو بتایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیے نے کھا لیا ہے تو یہ اندوہناک خبر سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہی کہاتھا: ﴿ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ ﴾ [یوسف: ۱۸] اور فرزندِ ارجمند کی فرقت کے تکلیف دہ اور کٹھن ایام جن میں تلخیِ غم اور شدتِ حزن کا عالم یہ تھا کہ شفقتِ پدری کے انمول جذبات کی شدت سے فراقِ پسرِ دل بند میں آنکھیں موندھ لیں اور ہمہ وقت اپنے لختِ جگر کو یاد کرتے اور کہتے: ﴿ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ ﴾ [یوسف: ۸۴]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۰۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۳۱۵).