کتاب: سوئے منزل - صفحہ 199
بڑھاپے کا سہارا سعادت مند بیٹا تھا، کوئی کسی کے سر کا تاج شوہر اور کوئی کسی کی وفا شعار بیوی تھی، کوئی کسی کا عزیز از جان دوست تھا اور کوئی کسی کا ناصحِ امین معلم و مربی۔ الغرض! یہ شہرِ خموشاں کو آباد کرنے والی کوئی دوسری مخلوق نہیں ، بلکہ یہ تمام ہمارے ہی اقرباء و احباب ہیں-
باری باری دوستو سب کو پکارا جائے گا
آج اوروں کا جنازہ کل ہمار ا جائے گا
آج ہم دفنا رہے ہیں اپنے ہی ماں باپ کو
کل ہمیں بھی قبر کے اندر اتارا جائے گا
أَیْنَ آبَاؤُنَا وَ أَیْنَ بَنُوْہُمْ؟ أَیْنَ آبَاؤُہُمْ وَأَیْنَ الْجُدُوْدٗ
سَلَکُوا مَنْہَجَ الْمَنَایَا فَبَادَرُوا وَأَرَانَا قَدْ حَانَ مِنَّا الْوُرُوْدٗ
بقول مولانا حالی مرحوم: ع
غالب ہے، نہ شیفتہ ہے، نہ نیرّ باقی
وحشت ہے نہ سالک ہے نہ انور باقی
حالی اب اسی کو بزمِ یاراں سمجھو
یاروں کے جو داغ ہیں دل پر باقی
ان پیاروں کی جدائی کا غم بہت بڑی مصیبت ہے، کیوں کہ یہ لمبی جدائیاں ، یہ حشر تک کا فراق اور یہ صدمے کبھی بھو لنے والے نہیں اور لوحِ قلب پہ ان کی یادوں کے ان مٹ نقوش ہمیشہ غمِ جدائی کے چرکوں کو تازہ رکھتے ہیں- ابو العیناء نے سچ کہا ہے:
شَیْئَانِ بَکَتِ الدِّمَائَ عَلَیْہِمَا عَیْنَايَ حَتّٰی تُؤْذِنَا لِذِہَابٍ
لَنْ تَبْلُغَا الْمِعْشَارَ مِنْ حَقَّیْہِمَا فَقْدُ الشَّبَابِ وَ فُرْقَۃُ الْأَحْبَابِ
’’دو قسم کے صدمے ایسے دلفگار اور جانگسل ہیں کہ اگر میں ان پہ روتے