کتاب: سوئے منزل - صفحہ 198
غم و حزن کے سائے داغِ مفارقت دینے والے تو اپنی دنیا کی عمر، اس جہاں میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ مدت اور توشۂ آخرت جمع کرنے کے لیے میسر آنے والی مہلت پوری کرنے کے بعد کامیابی کا تمغہ اپنے سینے پہ سجاکر یا ناکامی کا بد نما داغ اپنے دامن پر لگا کر اللہ کی قضا و قدر کے سامنے سرِ تسلیم خم کر کے چا ہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے راہیِ ملکِ بقا ہوئے، کیوں کہ اللہ جل شانہ نے ہمارے والدین (سیدنا حضرت آدم اور سیدہ حواi) کو زمین پر بساتے وقت ہی آگاہ کردیا تھا: ﴿ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ ﴾ [البقرۃ: ۳۶] ’’اور تمھارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کر دیا گیا) ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ﴾ [النحل: ۶۱] ’’لیکن(اللہ تعالیٰ) ان کو ایک وقتِ مقرر تک مہلت دیتا ہے، جب وہ وقتِ (مقررہ) آ جاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں-‘‘ جانے والے جا چکے، ان میں کوئی کسی کا سایۂ رحمت باپ تھا اور کوئی کسی ٹھنڈی چھاؤں اماں جان تھیں ، کوئی کسی کا دستِ راست بھائی تھا، اور کوئی کسی کے