کتاب: سوئے منزل - صفحہ 19
سا نحے پر ان کے تمام اہلِ خانہ کے سا تھ اظہارِ ہمدردی تھا، لیکن بھائی زبیر احمد رحمہ اللہ کے سا تھ گہرے مر اسم اور قلبی تعلق کی بنا پر اس صدمے سے خود اس قدر متاثر تھاکہ جب بھی ارادہ کیا، قلم نے چند سطور سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور یہ خواہش تشنۂ تکمیل ہی رہی، حتی کہ ہمارے انتہائی قابلِ قدر محترم ومشفق بزرگ اور جماعت اہلِ حدیث کی عظیم شخصیت اور ولیِ کامل حضرت صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ کے حقیقی جانشین حضرت مولانا عبدالقادر ندوی (سابق صدر جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن) جنھوں نے اپنا قیمتی سرمایۂ حیات اور اپنی تمام تر خدمات اللہ کے دین اسلام اور علم و علما کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھیں ، مورخہ ۸؍ مارچ ۲۰۱۱ء کو داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تَغَمَّدَہٗ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہِ وأَسْکَنَہٗ فَسِیْحَ جَنَّاتِہِ!
حضرت ندوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد پھر سے ان بکھرے اوراق کو ترتیب دینا شروع کیا، جو ایک کتابچے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ آہ!
ہم بیٹھے ہیں ترتیب دینے دفتر کو
ورق جب اڑا لے گئی ہوا ایک ایک
میں نے اس مختصر رسالے کو ’’سوئے منزل‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے، کیوں کہ اس میں ساعتِ اِحتضار سے لے کر منازلِ آخرت کی پہلی گھاٹی (قبر) تک سے متعلقہ چند امور کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ راقم نے ان سطور کے ذریعے اہلِ ایمان کے دلوں میں قرآنِ کریم اور احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں فکرِ آخرت کی جوت جگانے کی سعی و کوشش کی ہے۔ کیوں کہ انسان ایک ایسا غافل منصوبہ ساز ہے جو اپنی ساری پلاننگ (منصوبہ بندی) میں موت کو شامل ہی نہیں کرتا۔ إِلَّا مَا شَائَ اللّٰہ۔
اگر میں اظہار ما فی الضمیر میں کامیاب رہا ہوں تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم