کتاب: سوئے منزل - صفحہ 187
فَیُقَالُ: لاَ دَرَیْتَ وَلاَ تَلَیْتَ، وَ یُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِیْدٍ بَیْنَ أُذُنَیْہِ، فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَسْمَعُہَا مَنْ یَّلِیْہِ غَیْرَ الثَّقَلَیْنِ )) [1]
’’بے شک بندے کو جب اس کی قبر میں دفن کیا جاتا ہے، اور اسے دفنانے والے اس سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں ، اور وہ اس وقت ان کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے، تو دو فرشتے(منکر ونکیر) اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں : اس شخصیت (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تم کیا کہتے تھے؟ مومن جواب دیتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، چنانچہ اسے کہا جاتا ہے: تم جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو، اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس کے بدلے میں جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے! اور رہا منافق و کافر تو اس سے کہا جاتا ہے: تم اس شخصیت (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ وہ کہتا ہے: مجھے کچھ پتا نہیں ، میں تو وہی کہتا تھا، جو لوگ کہتے تھے، چنانچہ اسے کہا جاتا ہے: نہ تم نے معلوم کیا اور نہ تم نے (قرآن کو) پڑھا اور پھر اس کے کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑوں کے ساتھ اس قدر زور سے مارا جاتا ہے کہ اس سے اس کی چیخیں نکلتی ہیں ، جنھیں سوائے جن و انس کے باقی تمام مخلوقات سنتی ہیں ‘‘
اور صحیح مسلم کی روایت میں حضرت قتادۃ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ اس (مومن) کے لیے اس کی قبر کو ستر (۷۰) ہاتھ تک کشادہ کر دیا جاتا ہے اور قیامت تک کے لیے اس میں نعمتوں اور شادابی کو بھر دیا جاتا ہے-[2]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۷۴).
[2] صحیح مسلم، کتاب الجنۃ، رقم الحدیث (۲۸۷۰).