کتاب: سوئے منزل - صفحہ 185
ذو النورین، شہیدِ مدینہ جو بوقتِ شہادت حالتِ روزہ اور تلاوتِ کلام میں مصروف تھے اور بوقتِ شہادت جن کا پاک لہو قرآن پاک کے مقدس اور اق پہ گرا، یہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفۂ راشدسیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں-
آئیے! ان سے قبر کا ذکر سن کر رونے کا سبب دریافت کرتے ہیں- چنانچہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام ہانی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب قبر کے پاس کھڑے ہوتے تواتنا روتے کہ آنسوؤں سے آپ کی ڈاڑھی مبارک تر ہو جاتی، جب ان سے پوچھا گیا کہ جب جنت و دوزخ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو آپ اتنا نہیں روتے، جتنا قبر پر کھڑے ہو کر روتے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
(( إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَۃِ، فَإِنْ نَجَا مِنْہُ أَحَدٌ فَمَا بَعْدَہُ أَیْسَرُ مِنْہُ، وَإِنْ لَّمْ یَنْجُ مِنْہُ فَمَا بَعْدَہُ أَشَدُّ مِنْہُ )) [1]
’’بے شک قبر منازلِ آخرت میں سے پہلی منزل ہے، اگر انسان اس میں نجات پا گیا تو بعد میں آنے والی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہو ں گی، اور اگر وہ اس میں نجات نہ پا سکا تو بعد میں آنے والی منزلیں اس سے زیادہ مشکل ہوں گی۔‘‘
اور راویۃ الاسلام سیدناحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
(( اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ )) [2]
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۳۰۸) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۲۶۷).
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۷۷).