کتاب: سوئے منزل - صفحہ 184
کی اس زبانِ اقدس سے جن کے بارے میں خود ربِ کائنات نے فرمایا ہے:
﴿ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ﴾ [النجم: ۳۔ ۴]
’’اور نہ وہ اپنی مرضی سے منہ سے بات نکالتے ہیں- یہ (قرآن) تو حکمِ الٰہی ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔‘‘
اس زبانِ اقدس سے جب وہ کوئی خبر سماعت کرتے تو وہ ان کے لیے معاینے اور مشاہدے کی ما نند ہوتی تھی اور ان کو اس طرح اس پر یقین ہو تا تھا، جیسا کہ وہ اس کا چشم دید مشاہدہ کر رہے ہوں- آئیے! ہم صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کے راست گو اور عادل و ثقہ اور آپ کی تربیت یافتہ جماعتِ حقہ جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں مختلف القاب (الصَّادِقُونَ ، الْمُفْلِحُونَ ، الرَّاشِدُونَ) اور اسی طرح کے بہت سے دیگر قابلِ فخر القاب اور اپنی رضوان و مغفرت کے تمغہ جات سے نوازا ہے۔ ان سے معلوم کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے احوالِ قبر سے متعلق کیا سنا ہے؟
آئیے! ذرا اس شخصیت کا بیان سنتے ہیں کہ جن کے بارے میں حدیث پاک میں مذکور ہے کہ جب ان کے سامنے قبر کا تذکرہ ہوتا تو اس طرح زار و قطار روتے کہ آنسوؤں سے ان کی ریش مبارک بھیگ جایا کرتی تھی۔ یہ کون ہیں ؟یہ زبانِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی بشارت پانے والے، یہ سبقت الی الاسلام کے شرف سے مشرف، یہ صاحبِ ہجرتین، یہ وجۂ بیعتِ رضوان، یہ جیش العسرۃ کو تیار کرنے والے، یہ بئر روما کو خرید کر وقف کرنے والے، یہ پیکرِ حیا، یہ حافظِ قرآن، یہ جامع القرآن، یہ سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور دوہرے داماد کہ جنھیں وہ شرف عظیم عطا ہوا جو کائنات میں کسی امتی کو نصیب نہیں ہو سکا یعنی سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی دو دختران گرامی رضی اللہ عنہما یکے بعد دیگرے ان کے نکاح میں آئیں (سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہما ) یہ