کتاب: سوئے منزل - صفحہ 182
عَمَلُکَ الصَّالِحُ‘‘ ’’پھر اس کے پاس ایک انتہائی خوبرو، خوش پوشاک اور عمدہ خوشبو والاشخص حاضر ہوتا ہے اور یہ مزدۂ جاں فزا سناتا ہے کہ خوش خبری قبول کرو اسی مبارک دن کا آپ سے وعدہ کیا گیا تھاتو وہ (فوت ہونے والا نیک شخص) کہتا ہے: بھئی آپ کون ہیں ؟ آپ کا رخِ زیبا تو خیر کی خبریں لانے والوں کے جیسا ہے تو وہ جواب دیتا ہے: میں تیرا نیک عمل ہوں- (یعنی اللہ تعالیٰ نے قبر کی تنہائیوں میں مجھے تیرا مؤنس وسا تھی بنایا ہے)۔
اور کافر و فاجر شخص جب قبر کے امتحا ن میں ناکام ہو جاتاہے، اس کے نیچے آگ کا بستر بچھا دیا جاتا ہے، جہنم کی طرف سے کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے تو پھر:
(( یَأْتِیْہِ رَجُلٌ قَبِیْحُ الْوَجْہِ، قَبِیْحُ الثِّیَابِ مُنْتِنُ الرِّیْحِ فَیَقُوْلُ: أَبْشِرْ بِالَّذِيْ یَسُوْئُ کَ، ہٰذَا یَوْمُکَ الَّذِيْ کُنْتَ تُوْعَدُ، فَیَقُوْلُ: مَنْ أَنْتَ فَوَجْہُکَ الْوَجْہُ یَجِیْیئُ بِالشَّرِّ، فَیَقُوْلُ: أَنَا عَمَلُکَ الْخَبِیْثُ۔۔۔ الخ )) [1]
’’اور اس (کافر یا فاجر شخص) کے پاس ایک انتہائی بد صورت، خستہ حال لباس اور بدبودار شخص آتا ہے اور اسے طنزاً کہتاہے: خبرِ بد کی نوید سنو! یہی وہ (منحوس) دن ہے، جس کا آپ سے وعدہ کیا گیا تھا تو وہ اس سے پوچھے گا: تو کون ہے؟ تیرے چہرے ہی سے نحوست ٹپک رہی ہے؟ تو وہ جواب دے گا: میں تیرا عملِ بد ہوں۔۔۔‘‘
لہٰذا ہر شخص کو قبر کے سا تھی کی فکر کرنی چاہیے، جو قبر کی وحشت و تنہائی میں انیس و جلیس اور باعثِ راحت وسکون ہو نہ کہ باعثِ تکلیف و عذاب۔
[1] مسند أحمد (۱۸۵۵۷) قال الألباني والأرناؤوط صحیح.