کتاب: سوئے منزل - صفحہ 181
ہے: مجھے موقع دیجیے، میں نماز ادا کر لوں- وہ کہتے ہیں : تم نماز تو پڑھ ہی لو گے، پہلے ہمارے سوال کا جواب دو۔ وہ جواب دیتا ہے: میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور آپ اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے، تو اسے کہا جاتا ہے: تم اسی بات پر زندہ رہے اور تمھاری موت بھی اسی پر آئی اور اسی پر تمھیں ان شاء اللہ اُٹھایا جائے گا۔ پھر اس کے لیے جنت کی طرف ایک دریچہ کھول دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتاہے: یہی تمھارا ٹھکانا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تیار کی ہیں ، وہ بھی تمھاری ہیں- چنانچہ اس کی خوشی اور سرور میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھر جہنم کا ایک دروازہ کھول کر اسے کہا جاتا ہے: یہ تمھارا ٹھکانا ہوتا اگر تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے۔ اس پر اس کی خوشی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر اس کی قبر کو ستر ہاتھ تک وسیع کردیا جاتا ہے اور اسے اس کے لیے منور کر دیا جاتا ہے اور اس کے جسم کو اس چیز کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے، جس سے اس کو شروع کیا گیا ہوتا ہے۔ پھر اس کی روح کو ان پاکیزہ پرندوں کے اندر پہنچا دیا جاتا ہے، جو جنت کے درختوں سے کھاتے ہیں-
قارئینِ محترم! ذرا غور فرمائیے: قبر میں صرف اعمالِ صالحہ ہی کام آتے ہیں ، جس نے تو نیک اعمال کیے اسے تو یہ فائدہ دیں گے اور قبر میں اس کی حفاظت کریں گے اور جس نے کوئی نیک عمل کبھی کیا ہی نہیں اس کا دفاع کون کرے گا؟
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں ہے کہ جب مومن قبر کے امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اس کی قبر میں جنت کی طرف سے ایک دریچہ کھول دیا جاتا ہے اور اسے جنت کی طرف سے عطر بیز ٹھندی ہوائیں آنا شروع ہو جاتی ہیں تو اس گوشتۂ تنہائی میں بطور انیس و جلیس ’’فَیَأْتِیْہِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْہِ حَسَنُ الثِّیَابِ طَیِّبُ الرِّیْحِ فَیَقُوْلُ اَ بْشِرْ بِالَّذِيْ یَسُرُّکَ ہٰذَا یَوْ مَکَ الَّذِيْ کُنْتَ تُوْعَدُ، فَیَقُوْلُ لَہٗ مَنْ اَنْتَ؟ فَوَجْہُکَ الَّذِيْ یَجِیئُ بِالْخَیْرِ‘ فَیَقُوْلُ اَنَا